الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین ۔أما بعد
ارشاد باری تعالیٰ ہے
((غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ لَااِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ))غافر:۳
’’اللہ تعالیٰ گناہ کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول فرمانے والاسخت عذاب والا انعام و قدرت والاہے،اس کے سوا کوئی معبودنہیں اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا
((فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَاْلاِبْکَارِ))[غافر:۵۵]
’پس اے نبی! توصبرکر اللہ کا وعدہ بلاشک وشبہ سچا ہی ہے،تو اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہ اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہے۔
تیسری جگہ فرمایا
((وَاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْراً رَّحِیْماً))[النسائ:۱۰۶]
اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو!بے شک اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا ،مہربانی کرنے والا ہے۔
چوتھی جگہ فرمایا
((فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّاباً))[النصر:۳]
تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ،بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
یہ عظیم الشان آیات استغفار اور اس پر مداومت کی دعوت دیتی ہیں۔
خوش بخت انسان
آپ صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے:” طوبی لمن وجدفي صحیفتہ استغفارا کثیرا․“سنن ابن ماجہ، کتاب الأدب، باب الاستغفار، رقم الحدیث:3818
یعنی خوش بختی ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنے نامہٴ اعمال میں استغفار کی کثرت پائی۔
استغفار عذاب الہٰی سے پناہ گاہ
آج پورا ملک بے امنی کا شکار ہے ، کسی کی جان، مال محفوظ نہیں، صبح گھر سے نکلنے اولا شخص اپنے دماغ میں سینکڑوں وساوس لے کر نکلتا ہے، کہ پتہ نہیں کیا ہو جائے؟ عذاب الہی کبھی قتل وغارت گری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی زلزلوں کی صورت میں، کبھی سیلاب تو کبھی قحط کی صورت میں اور اس عذاب الہی کے دنیاوی اسباب ڈھونڈ کر ان کے سدّباب کی ناکام کوشش کی جاتی ہے، لیکن اپنی طرز زندگی پر نظر نہیں ڈالی جاتی کہ ہماری زندگی کس ڈھنگ سے گزر رہی ہے، اس بات کی طرف ذہن نہیں جاتا کہ ہم نے اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے الله تعالیٰ کوناراض کیا ہوا ہے، الله تعالیٰ کو منانے کی ضرورت ہے اور اپنی گناہوں کی زندگی سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن کریم کی آیت ہے:﴿وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُون﴾․ (سورة الانفال:33)
الله تعالیٰ اُن کواس وقت تک عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے، جب تک کہ آپ (صلی الله علیہ وسلم) ان میں موجود ہیں اور الله تعالیٰ ان کو اس حالت میں عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے، جب تک وہ استغفار کرتے ہوں۔
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر عذاب الہی سے اس کی دو پناہ گاہیں تھیں، ایک تو اٹھ گئی اور دوسری باقی ہے، لہٰذا اس دوسری پناہ گاہ کو اختیار کرو، جو پناہ گاہ اٹھ گئی وہ تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی اور جو باقی ہے وہ استغفار ہے۔
دنیاوی مصائب سے نجات کا ذریعہ استغفار ہے
دنیا میں انسان کو بسا اوقات مالی مشکلات پیش آتی ہیں تو کبھی بیماریوں کی صورت میں مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے، ایسی مشکلات ومصائب میں دنیاوی اسباب اختیار کرنے چاہییں، اس میں کوئی حرج نہیں ، لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے، کہ آخر مجھے مصائب ومشکلات میں مبتلا کرنے والی ذات صرف الله تعالیٰ کی ہے، اگر میں اس مشکل ومصیبت کے ازالے کے لیے در بدر گھوما ہوں اور ہر اس آدمی کے پاس جس سے ذرہ سی بھی اس مشکل کی داد رسی کی امید تھی، اس کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو کیا میں نے کبھی اس ذات کے سامنے اپنی مشکل او رمصیبت رکھی ہے جس ذات کے علاوہ اور کوئی نہ تکلیف پہنچاسکتا ہے اور نہ تکلیف ہٹا سکتا ہے؟! چناں چہ ہمیں ہر مصیبت وپریشانی میں الله تبارک وتعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اپنے طرز زندگی پر غور کرنا چاہیے کہ آیا کہیں میری زندگی اس رب کی نافرمانی میں تو نہیں گزر رہی، اگر گناہوں کی زندگی ہو تو اس سے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔
قرآن کریم کی آیت ہے :﴿وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ﴾․(سورة السجدہ:21)
اور البتہ چکھائیں گے ہم ان کو تھوڑاعذاب ،ورے اس بڑے عذاب کے، تاکہ وہ پھر آئیں۔
عذاب ادنیٰ سے مراد دنیا کے مصائب، آفات، امراض وغیرہ ہیں، عذاب اکبر سے عذاب آخرت مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو الله تعالیٰ ان کے گناہوں پر متنبہ کرنے کے لیے دنیا میں ان پر امراض اور مصائب وآفات مسلط کر دیتے ہیں، تاکہ یہ متنبہ ہو کر اپنے گناہوں سے باز آجائیں اور عذاب اکبر ان کے لیے یہ دو ہرا عذاب ہے، ایک اسی دنیا میں نقد اور دوسرا آخرت کا۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة السجدہ،:21،73/14 دارا حیاء التراث العربی)
استغفار رنج وغم دور کرنے کا ذریعہ اور رزق میں کشادگی کا سبب ہے
آج ہر دوسرا، تیسرا آدمی پریشان ہے، کسی کو مالی پریشانی ہے، تو کوئی دوسروں کی وجہ سے نالاں وپریشان ہے، کسی کو کیا غم ہے تو کسی کو کیا؟ اور ان پریشانیوں کا رونا مخلوق کے سامنے روتے ہیں اور اپنی زندگی او راپنے اعمال کی طرف نظر نہیں جاتی ، کہ آیا میری زندگی کے شب وروز الله تعالیٰ کی اطاعت میں گزر رہے ہیں یا نافرمانی میں؟
آپ صلى الله عليه وسلم نے ان پریشانیوں سے نجات کا ایک ذریعہ بتایا ہے:”من لزم الاستغفار جعل الله لہ من کل ھم فرجا، ومن کل ضیق مخرجا، ورزقہ من حیث لا یحتسب․“(سنن ابن ماجہ، کتاب الأدب، باب الاستغفار، ص:271، قدیمی)
جو استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لیتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو ہر رنج وغم سے نجات دیتا ہے او راس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ نکال دیتا ہے، او راسے ایسی جگہ سے ( پاک وحلال) روزی بہم پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔
اور قرآن کریم کی آیت بھی ہے:﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً، یُرْسِلِ السَّمَاء عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً، وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَاراً ﴾․(سورہ نوح آیت:12-10)
پس میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگوکیوں کہ وہ بہت زیادہ بخشے والا ہے۔ وہ تم پر بکثرت بارش برسائے گا او رتمہیں مال واولاد دے گا، او رتمہارے لیے باغ بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا۔
واقعہ… حضرت حسن بصری رحمہ الله کے بارے میں منقو ل ہے کہ ایک شخص نے ان سے قحط سالی کی شکایت کی ، تو انہوں نے اس سے کہا کہ الله سے استغفار کرو، پھر ایک او رشخص نے محتاجگی کا شکوہ کیا او رایک نے اولاد نہ ہونے کا اور ایک نے زمین کی پیداوار میں کمی کی شکایت کی، انہوں نے سب ہی کو کہا کہ استغفار کرو، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس کئی شخص آئے اور سب نے الگ الگ پریشانی ظاہر کی، مگر آپ نے سب ہی کو استغفار کرنے کا حکم دیا، اس کی کیا وجہ ہے؟! تو حضرت حسن بصری رحمہ الله نے جواب میں مذکور بالا آیت پڑھی۔ (تفسیر روح المعانی، سورہ نوح، آیت:12-10، 81/15 دارالکتب)
الله تعالیٰ بار بار توبہ قبول فرماتا ہے
الله تبارک وتعالی ایسی غفور رحیم ذات ہے کہ اگر بندہ سے گناہ ہو جائے اور پھر وہ نادم ہو کر الله تعالیٰ سے معافی مانگے تو الله تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر پھر گناہ ہو جائے اور پھر نادم ہو کر الله تعالیٰ سے معافی مانگے تو الله تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر متعدد بار اس طرح ہو تو بھی توبہ نہیں چھوڑنی چاہیے، اگر گناہ نہیں چھوڑ سکتے تو توبہ بھی نہیں چھوڑنی چاہیے، اگر ہر بار سچے دل سے نادم ہو کرتوبہ کرے اور توبہ کرتے وقت اس گناہ کو نہ کرنے کا پختہ عزم تو الله تعالیٰ توبہ قبول فرما تے ہیں۔
آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:”ما أصرَّ من استغفر، وإن عاد فی الیوم سبعین مرة․“(مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبہ، رقم الحدیث:2340)
جس شخص نے اپنے گناہ پر استغفار کیا، اس نے اپنے گناہ پر اصرار نہیں کیا، اگرچہ وہ دن میں ستر بار گناہ کرے۔
واقعہ… مسلم شریف میں ایک واقعہ ہے کہ اسی امت میں سے یا گذشتہ امتوں میں سے ایک بندے نے گناہ کیا او رپھرکہنے لگا، اے الله! میرے گناہ کو بخشش دے، تو الله تبارک وتعالی نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا، وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پرورد گار ہے ، جو گناہ بخشتا ہے ( اور جس کو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے) گناہ پر مؤاخذہ کرتا ہے۔
پھر وہ (گناہ) کی طرف لوٹا او رگناہ کر لیا، پھر کہنے لگا، اے میرے رب! میرے گناہ کو بخشش دے، پس الله تبارک وتعالی نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے، جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ کرتا ہے۔
پھر وہ گناہ کی طرف لوٹا اور گناہ کیا، پھر کہنے لگا اے میرے رب! میرے گناہ کو بخش دیجیے، پس الله تبارک وتعالی نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پرورد گار ہے جو گناہ بخشتا ہے او رگناہ پر مؤاخذہ کرتا ہے ( پس جب تک تو استغفار کرتا رہے) تو جو چاہے کرے ، میں نے تجھے بخش دیا۔(الجامع الصحیح للمسلم، کتاب التوبہ، باب قبول التوبہة من الذنوب وإن تکررت الذنوب والتوبة، رقم الحدیث:6986)
فائدہ… حدیث کے آخری الفاظ، توجو چاہے کرے، کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تو گناہ کرتا رہے گا او راستغفار کرتا رہے گا، میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، لہٰذا اس جملہ سے خدانخواستہ گناہ کی طرف رغبت دلانا مقصود نہیں ہے، بلکہ استغفار کی فضیلت او رگناہوں کی بخشش میں استغفار کی تاثیر کو بیان کرنا مقصود ہے۔
مُردوں کے لیے استغفار
جس طرح ہم اپنے لیے استغفار کریں، اسی طرح ہم مُردوں کے لیے بھی استغفار کرنا معمول بنائیں ، اپنے والدین کے لیے، اپنے رشتہ داروں، اساتذہ اور تمام مرحومین کے لیے بھی استغفار کریں۔
اس لیے کہ مردے زندوں کی طرف سے ایصال ثواب کے محتاج ہوتے ہیں اور اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کوئی کچھ دعا وغیرہ ایصال ثواب کرے۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”ما المیت فی القبر الا کالغریق المتغوث، ینتظردعوة تلحقہ من أب أو أم أو أخ أو صدیق، فإذا لحقتہ، کان أحبّ إلیہ من الدنیا وما فیھا، وإن الله تعالیٰ لیدخل علی أھل القبور من دعاء أھل الأرض أمثال الجبال، وإن ھدیة الاحیاء إلی الأموات الاستغفار․“ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبة، رقم الحدیث:2355)
یعنی قبر میں مردہ کی حالت ایسی ہے جیسا کہ کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور کسی کو پکاررہا ہو، ( کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر پانی سے باہر نکال لے) چناں چہ وہ مردہ ہر وقت اس بات کا منتظر رہتا ہے، کہ اس کے باپ کی طرف سے یا اس کی ماں کی طرف سے یا اس کے بھائی کی طرف سے یا اس کے دوست کی طرف سے اس کو دعا پہنچے، پس جب اسے ( کسی کی طرف سے دعا پہنچتی ہے تو یہ دعا کا پہنچنا اس کے لیے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے محبوب ہوتا ہے اور الله تعالیٰ قبر والوں کو دنیا والوں کی طرف سے دعا کا ثواب پہاڑ کی مانند ( یعنی بہت زیادہ ثواب) پہنچاتا ہے اور زندوں کی طرف سے مردوں کے لیے بہترین ھدیہ استغفار ہے۔
مرحومین کے لیے استغفار رفع درجات کا ذریعہ
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”إن الله عزوجل لیرفع الدرجة للعبد الصالح فی الجنة فیقول: یارب! أنی لی ھذہ؟ فیقول: باستغفار ولدک لک․“( مسند الامام احمد بن حنبل، مسند أبی ھریرہ رضی الله عنہ، رقم الحدیث:10618،738/3 عالم الکتب)
الله عزوجل جنت میں اپنے نیک بخت وصالح کا درجہ بلند کرتا ہے، تو وہ پوچھتا ہے، میرے پرورد گار! مجھے یہ درجہ کیسے حاصل ہوا؟ الله تعالیٰ فرماتا ہے: تیرے لیے تیرے بیٹے کے استغفار کی وجہ سے۔
امت کے لیے معافی کی دعا سارے مسلمانوں کے برابر نیکیاں
انسان کو چاہیے کہ نہ صرف اپنے لیے او راپنے رشتہ داروں کے لیے مغفرت کی دعا کرے، بلکہ سب مسلمانوں کے لیے استغفار کرے اور یہ کام انسان کا خود اپنے لیے نیکیوں کو ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
امام طبرانی رحمہ الله نے اپنی ” معجم کبیر“ میں ایک حدیث نقل فرمائی ہے، جس میں جناب رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص روزانہ کم از کم ایک مرتبہ ”اللھم اغفرلی وللمومین والمنومنات“ پڑھے گا، اس کو دنیاکے تمام مسلمانوں میں سے ہر ایک کی جانب سے ایک ایک حسنہ اور نیکی ملی گی۔
عن أم سلمة رضی الله تعالیٰ عنھا قالت: قال النبی صلی الله علیہ وسلم: من قال کل یوم: اللھم اغفرلی وللمومنین والمومنات، الحق بہ من کل مؤمن حسنة․“(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:877،370/23، داراحیاء التراث العربی)
حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص روزانہ (یہ دعا) اے الله! میری مغفرت فرما اور تمام مومنین اور مومنات کی مغفرت فرما، کہا کرے گا، اس کو ہر مومن کی طرف سے ایک ایک حسنہ اور نیکی کا تحفہ ملے گا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا اپنی اُمّت کے لیے استغفار کرنا
آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی اُمّت پر اتنے شفیق او رمہربان تھے، کہ ہر وقت اپنی گناہ گار اُمّت کی بخشش کی فکر تھی۔
بخاری شریف کی روایت ہے:”أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: لکل نبی دعوة مستجابة یدعوبھا، وأریدأن أختبیٴ دعوتی شفاعة لامتی فی الاٰخرة․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب لکل نبی دعوة مستجابة، رقم الحدیث:6304)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ہر نبی کی ایک دعا ہوتی ہے ، جو وہ کرتا ہے ( اور وہ قبول ہوتی ہے ) اور میں چاہتا ہوں کہ اپنی دعا آخرت میں اُمّت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھوں۔
اور ایک روایت میں ہے کہ:ہر نبی کی ایک دعا قبول ہوتی ہے ، چناں چہ انہوں نے دعا کی او رمقبول بھی ہو گئی، لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی اُمّت کی شفاعت کے لیے محفوظ کر لی ہے۔ ( الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب لکل نبی دعوة مستجابة، رقم الحدیث:6304)
آپ صلى الله عليه وسلم اس وقت تک راضی نہ ہوں گے، جب پوری اُمّت مسلمہ کی بخشش نہ ہو جائے
جب قرآن کریم کی یہ آیت ﴿وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضَی﴾․ (سورة الضحیٰ:5) نازل ہوئی، ”اور آگے دے گا تجھ کو تیرا رب پھر تو راضی ہو گا۔“
تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إذن لا أرضی وواحد من أمتی فی النار“ یعنی جب یہ بات ہے، تو میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا، جب تک میری اُمّت میں سے ایک آدمی بھی جہنم میں رہے گا۔( التفسیر الکبیر للامام الرازی، سورة الضحیٰ، 5،192/31، دارالکتب)
اور حضرت علی کرم الله وجہہ کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ میری اُمّت کے بارے میں میری شفاعت قبول فرمائیں گے، یہاں تک کہ حق تعالیٰ فرمائیں گے، رضیت یا محمد! اے محمد! اب آپ راضی ہیں؟ تو میں عرض کروں گا، یارب رضیت، یعنی اے پروردگار! میں راضی ہوں۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة الضحیٰ:5،70/20، داراحیاء التراث العربی)
اورصحیح مسلم میں حضرت عمر وبن عاص رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ ایک روز رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے: یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ﴿فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾(سورہ ابراہیم:36)
”سو جس نے پیروی کی میری سو وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہنا نہ مانا، سو تو بخشنے والا مہربان ہے۔“
پھر دوسری آیت تلاوت فرمائی، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے : ﴿إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم﴾․(سورة المائدہ:118)
”اگر تو ان کو عذاب دے، تو وہ بندے ہیں تیرے او راگر تو ان کو معاف کر دے، تو تو ہی ہے زبردست حکمت والا۔“
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا کے لیے دونوں ہاتھ اٹھائے اور گریہ وزاری شروع کی اور بار بار فرماتے تھے، اللھم أمتی أمتی․ حق تعالیٰ نے جبرئیل امین کو بھیجا کہ آپ سے دریافت کریں کہ آپ کیوں روتے ہیں؟( اور یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ ہمیں سب معلوم ہے ) جبرئیل امین آئے اور سوال کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں اپنی امت کی مغفرت چاہتا ہوں۔ حق تعالیٰ نے جبرئیل امین سے فرمایا کہ پھر جاؤ اور کہہ دو کہ الله تعالیٰ آپ سے فرماتے ہیں کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہ کریں گے۔ ( الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی الله علیہ وسلم لأمتی، رقم الحدیث:499